Skip to content

ایک مختصر ڈرامہگدھا اور نوشیروانڈاکٹر سلیم ابو بکر کھانانیفارسی سے ماخوذنوشیروان اور اس کی انصاف پسندی اور مظلوموں کی داد رسی کے حوالے سے کئ واقعات نظم و نثر میں ملتے ہیں۔ایک واقعہ ابھی ابھی “فارسی کی تیسری کتاب مرتبہ پروفیسر خان صاحب قاضی فضل حق” میں پڑھا۔تین کتابوں کا یہ سلسلہ تقریباً ایک صدی پہلے شائع ہوا تھا اور اب بھی ادارہ سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور اسے مضبوط جلد میں دبیز کاغذ پر شائع کرتا رہتا ہے۔اگر میرا بس چلے تو یہ کتابیں سکول کے نصاب میں شامل کردوں۔ شاید کہ کسی دل میں اُتر جائیں اس کی حکمت سے لبریز اور سبق آموز نظمیں اور حکایات۔تو خیر آمدم بر سرِ مطلب۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نوشیروانِ عادل دربار منعقد کیئے تختِ شاہی پر براجمان تھے اور مغنیہ دل آرام غزل سرا تھی۔اے تُرکِ غمزہ زن کہ مقابل نشستہ ایدر دیدہ ام خلیدہ و در دل نشستہ ایدرباری ہی کیا بادشاہ سلامت بھی حسنِ صورت ، سوزِ آواز و آہنگ مضراب سے بے خود ہوئے جارہے تھے کہ اچانک عدل کی گھنٹی کی بلند آواز نے حاضرینِ مجلس کو جگا دیا۔ نوشیروان نے شہر کے وسط انصاف چوک پر یہ گھنٹی لگوائ تھی کہ فریادی جب چاہے بلا خوف و خطر اسے ہلا کر بادشاہ کے دربار میں رسائ پا سکے۔“ یہ کون ہے جس نے ہمیں پکارا؟” آوازِ شاہی میں قدرے ناراضگی کا عنصر پایا جاتا تھا لیکن اس دور میں روایتوں کا بھرم رکھا جاتا تھا۔عدلِ جہانگیری سے کون واقف نہیں؟ زنجیر عدل نے اس کے پاؤں بھی باندھ رکھے تھے یہاں تک کہ شبلی نعمانی کی ایک نظم کے مطابق جہانگیر کو اپنی محبوب ترین زوجہ نور جہاں تک کو ایک قتلِ ناحق میں سزائے موت سنانی پڑی۔ اللہ تعالی بھلا کریں اک مردِ شریعت کا جس نے دِیَت دیکر قصاص کے قانون کو برقرار رکھا۔ نور جہاں کی جان بچ گئ اور تخلیئے میں جہانگیر میاں بیوی کے قدموں میں گر گئےدفعتاً پاؤں کے بیوی پہ پڑا اور یہ کہاتو اگر کشتہ شدی آہ چہ میکردم من(تو اگر ماری جاتی تو میں کیا کرتا؟)اس دورِ پارینہ میں حکمران نہ صرف عربی اور فارسی پر دسترس رکھتے تھے بلکہ احوالِ دل کا اظہار شاعری میں کیا کرتے تھے“بادشاہ سلامت کسی منچلے نے چھیڑ خانی کی ہوگی۔ آپ خاطرناگوار نہ کریں۔ مغنیہ اشارے کی منتظر ہے۔”چہیتے وزیر نے اپنے نمبر بڑھانے کی امید میں برجستہ کہا۔“کیوں بھئ مجھے تم نے پاکستان کا وزیر اعظم سمجھ رکھا ہے؟کوتوال فوراً جاؤ اور فریادی کو لیکر آؤ۔ اور اس کا احترام کرنا۔”نہ چھیڑو دردمندوں کو نجانے دل سے کیا نکلےبھلا نکلے بُرا نکلے نجانے دل سے بد دعا نکلےنوشیروان کو عوام کی بد دعا سے بڑا ڈر لگا رہتا تھا۔ نانی جان اور دادی حضور کی تربیت کا اثر جو تھا۔چند ہی ساعت کے بعد کوتوال ایک گدھے کو لیکر دربار پہنچا۔بادشاہ سلامت تخت شاہی سے بنفس نفیس اتر آئے اور گدھے کی لگام تھامے اسے نہایت احترام کے ساتھ انصاف کے چبوترے پر لے آئے۔منطقِ حیوان سے ناواقف تھے لیکن خوش قسمتی سے ایک veterinarian یعنی ماہر امراض حیوانات حاضرِ مجلس تھا۔اذن شاہی ہوا کہ گدھے کا معائنہ کیا جائے۔“بادشاہ سلامت یہ بہت ضعیف گدھا ہے۔ عمر بھر بارِ گراں اٹھاتے اٹھاتے اس کی کمر پچک گئ ہے اور گردن میں سخت طوق پہننے کی بنا پر جلد کی حالت بھی تشویش ناک ہے۔ لگتا ہے بیچارہ زنجیر سے گردن سہلا رہا تھا کہ زنجیر ہل گئ۔”“اس کی یہ حالت کس نے کی ہے ؟اس کے مالک کا پتہ لگا کر فوراً ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔” شاہی جلال عروج پر تھا۔“ بادشاہ سلامت ایک تین افراد پر مبنی تحقیقاتی کمیٹی بٹھا دیتے ہیں جو سہ ایام میں مکمل ریپورٹ پیش کردے گی۔” ایک وزیر نے عرض کی۔“ ابے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے کیا؟ لگتا ہے تم پاکستانی چینلز بہت دیکھنے لگے ہو۔ مجھے ایک گھنٹے کے اندر اندر اس خرِ ناتواں کے مالک کو پیش کرو۔ جاؤ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے اور خبردار یہ مت کہنا کہ اس کا مالک پُلس مقابلے میں مارا گیا۔ اسے زندہ پیش کرو ورنہ تمہاری گردن مار دی جائے گی اور یہ بھی میرا انصاف ہوگا۔”عدل نوشیروان! عدل نوشیروان! زندہ باد زندہ بادنعروں سے فضا گونج اٹھی۔وزیر صاحب کی وہ حالت تھی کہ گویا آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔لرزتے ہوئے دربار سے نکلے اور گھر سدھارے۔ گدھا انہی کا تھا۔ بیگم کے پاس پہنچے اور روداد بیان کی۔“بیگم اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے۔”بیگم نے جواباً کہا۔“مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟”بادشاہ کا انصاف ایسا تھا کہ اگر ظالم مردہ برآمد ہوتا تو اس کی لاش گلیوں میں گھسیٹواتے۔“اب کیا تدبیر ہو؟”“میاں جب تقدیر سامنے کھڑی ہوجائے تو تدبیر کچھ کام نہیں آتی۔ بہتر ہے کہ اقرار جرم کر لو۔ “وزیر نے بیگم کی بات مان لی اور کاغذی پیرہن میں ملبوس دربار پہنچا۔بادشاہ نے دیکھتے ہی کہا: “مجھے پہلے ہی شک تھا کہ چور کی ڈاڑھی میں تنکا ہے۔ لیکن انصاف کا تقاضہ ہے کہ سزا سنانے سے پہلے تمہاری بات بھی سنی جائے کہو کیا قصہ ہے؟”“بادشاہ سلامت اس بزرگ گدھے کے والدینِ بزرگوار میرے لیئے بار برداری کی خدمت پر معمول تھے۔ یہ میرے گھر ہی پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ برسوں میری خدمت سر انجام دی لیکن اب اس کی بوڑھی ہڈیاں بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں رہی ہیں۔ میں نے ترس کھا کر اسے retire کردیا”“ مجھے گولی دے رہے ہو؟ ریٹائر کردیا! صاف کیوں نہیں کہتے کہ گھر سے نکال دیا؟ “وزیر کی ٹانگیں اتنی کانپیں کہ وہ بزرگ گدھے کے قدموں میں گر پڑے۔“جان کی امان جہاں پناہ! جان کی امان!”“تمہارا جرم نہایت سنگین ہے لیکن شکر باری تعالی کے خرِ بزرگوار ابھی بقید حیات ہیں۔ شرعی حد تو نافذ نہیں ہوسکتی لیکن تعزیرات شاہی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اس گدھے کے مکمل علاج کے سارے اخراجات تمہاری تنخواہ سے کاٹے جائیں گے اور وہ بھی after tax ۔ ہماری مملکت میں ہر مرض کے specialist موجود ہیں اس لیئے بیرون ملک علاج کے لیئے جانے کی حاجت نہیں۔ آج سے تمام جانوروں کو پینشن اور retirement benefits مہیا کیئے جائیں گے اور یہ رقم ان کے مالکین سے لیکر شرعی mutual funds میں invest کی جائے گی۔ ایک عظیم الشان retirement چراہ گاہ بنائ جائے جہاں سارے retired جانور اپنی زندگی کے بقایہ ایام عیش و عشرت میں بسر کریں!”“جہاں پناہ کا اقبال بلند ہو! عدلِ نوشیروانی زندہ باد!”نعروں کی گونج دربار شاہی سے نکل کر فضاؤں میں بکھرتے بکھرتے پڑوسی ممالک میں بھی سُنائ دی۔“توسی عظیم او! جہاں پناہ میں پاکستان کے سرکاری دورے سے ابھی واپس آیا ہوں۔ وہاں تو پرانے فنکاروں، ادا کاروں اور کھلاڑیوں تک کو نہ پینشن ملی اور نہ ہی کوئ retirement benefits. جمیل فخری،روحی بانو اور نرالا جیسے عدیم النظر فنکار تڑپتے رہے لیکن ارباب اقتدار کے کانوں پر جوئیں تک نہ رینگیں۔”وزیر خارجہ رائ ونڈ، زمان پارک اور بنی گالہ سمیت پنجاب کے کئ شہرہ آفاق علاقے دیکھ کر آئے تھے۔ لاہور کی فوڈ سٹریٹ کا بغور معائینہ بھی کیا تھا۔ پنجابی زبان سے بڑے متاثر ہوئے تھے۔“ وے پگلے تو تے میں نوں رلا دیا!”نوشیروان کئ زبانیں جانتے تھے۔ ملکہ ترنم کے پنجابی گانے سن سن کر اچھی خاصی پنجابی سمجھ لیتے تھے اور “آ سینے نال لگ جا ٹھا کر کے” سنتے تو وجد میں آجاتے۔ یہ عالمِ شوق تخلیئے میں وقوع پزیر ہوتا اس لیئے سوائے مغنیہ دل آرام کے کوئ اور اس سے واقف نہیں تھا۔“ میرے عزیز ہم وطنوں! میرا دل چاہتا ہے کہ تاج و تخت کچھ عرصے کے لیئے ملکۂ عالیہ کے سپرد کرکے ملک خدا داد پاکستان جا کر ایک سیاسی پارٹی بنا ؤں اور انتخابات میں حصہ لوں۔ میرے انصاف، صداقت اور امانت کی شہرت اس کائنات میں چہار سُو پھیلی ہوئ ہے۔ اگر انتخابات صاف اور شفاف ہوئے تو میری پارٹی بھاری اکثریت سے فتح مند ہوگی۔”کچھ کی ہنسی چھوٹ گئ تو چند ایک کی چیخیں نکل گئیں۔وزیر اطلاعات سے رہا نہ گیا۔“جہاں پناہ جان کی امان ملے تو کچھ عرض کروں؟ مزاجِ شاہی کی برہمی ہرگز مطلوب و منظور نہیں۔”“زبانی سناؤ! آج گدھے کی سرگزشت سے دل و دماغ میں رقت طاری ہوگئ ہے اس لیئے آج کسی کی گردن مارنے کا موڈ نہیں۔ لیکن ملحوظ خاطر رہے کہ توسی بکواس کی تے کل لگ پتہ جائے گا۔”“جہاں پناہ آپ اس گستاخ کی کھال اتر وادیں تو بھی میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ صرف ایک روز Ary اور Geo News دیکھ لیں۔ اگر پھر بھی آپ پاکستان جانا چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور جیلیں بھر دیں گے۔”“ہا ہا ہا!” نوشیروان نے زور سے قہقہہ لگایا۔“ مینوں پاگل کتے نے کاٹا اے؟ میں حالات حاضرہ سے بخوبی واقف ہوں۔ ستیا ناس کردیا ہے۔ تباہ کر کے رکھ دیا ہے پاکستان کو۔ صرف سیاست دانوں نے ہی نہیں بلکہ عوام بھی اس سنگین جرم میں برابر کی شریک ہے۔ میں تو تمہارا امتحان لے رہا تھا کہ تم صرف میری ہاں میں ہاں ملاتے ہو یا واقعی میرے خیر خواہ ہو۔ جس بادشاہ کے مشیر بلا سوچے سمجھے اس کے ہر فیصلے پر عش عش کریں اس کی مملکت کے دن زیادہ نہیں ہوتے۔دل آرام اب سموسے کھانا اور ڈکاریں لینا بند کرو۔ وہ راگ چھیڑ مطربہاثر صدائے ساز کانہ ہاتھ روک ساقیاپلائے جا پلائے جادل آرام نے اجازت طلب کی۔ واش روم میں جا کر Dentogen powder سے دانت مانجھے پھر Gypsy amazing cream سے گالوں کو تب و تاب کیا۔ Tibet powder لگانا بھی نہیں بھولی۔ گرم پانی سے کلیاں کرکے دربار میں یوں جلوہ افروز ہوئ کہ دل دھڑکنے لگےاس کی نازک انگلیوں نے بربط کو چھیڑا تو فضاؤں میں جل ترنگ بکھر گئآرام کردہ ای بہ نہاں خانۂ دلمخلقے در ایں گماں کہ بہ محفل نشستہ ایخوباں شکستہ رنگ و خجل ایستادہ اندہر جا تو آفتاب شمائل نشستہ ای[ ]

ڈاکٹر ڈھول باجے والاایک قسط وار ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیاڑتینسویں قسطیہ عام مشاہدہ ہے کہ بیرون ملک جاکر لوگ اپنے ہم وطن، ہم مذہب اور ہم زبان انسانوں سے ملاقات کے خواہش مند ہوجاتے ہیں۔ اپنے ملک میں رہتے ہوئے بسا اوقات رشتے داروں میں بھی وہ قربت نہیں دیکھنے کو ملتی جو دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں میں نظر آتی ہے۔ ہاں کچھ لوگ اپنا مذہب، اپنی ثقافت اور زبان تک کو فراموش کر بیٹھتے ہیں شاید اس خیال سے کہ اس طرح انہیں نئے ماحول کو اپنانے میں مدد ملے گی اور مقامی آبادی انہیں اپنے درمیان قبولیت کا شرف عطا کرے گی۔ یہ صرف ایک خام خیالی ہے۔ڈاکٹر اجمل صدیقی کراچی سے ہاؤس جاب کے بعد سیدھے Buffalo پہنچے تھے۔ امتحانات میں کامیابی نے ان کے قدم چومے تھے اور ریزیڈینسی کے interviews کی اہمیت محض رسمی کاروائ تھی۔ان کے ایک سینئر دوست ڈاکٹر حسنین کاظمی نے بھائیوں سے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ اجمل جب interviews کے لیئے جاتے توحسنین اور ان کی اہلیہ انہیں ایئر پورٹ لانے جانے کی خدمات انجام دیتے۔هل جزاء الإحسان الا الاحساناحسان کا بدلہ احسان کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر حسنین کی recommendation پر اجمل کو Buffalo میں ہی ریزیڈینسی مل گئ اور اس کے اختتام پر انہیں اسی ہسپتال میں ملازمت بھی حاصل گئ۔ وہ پڑھنے اور پڑھانے کا جنون لیکر پیدا ہوئے تھے۔ عقیل سے ان کا وعدہ پانی پر لکھی ہوئ تحریر نہیں تھی۔ اپنے ریزیڈینسی پروگرام کے ڈائریکٹر سے بات چیت کے بعد انہوں نے عقیل کو اپنے زیرِ سایہ clinical attachment دلا دی۔یہ منزل بھی آسان ہوگئ اور عقیل اور فریدہ نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ عقیل کے پاس امریکی driving license نہ تھا۔ فریدہ نے ماں، بیوی، اور استاذہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرائیوری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی۔ یاسر کو سکول چھوڑ کر عقیل کو ہسپتال لیجاتی۔ گھر سنبھالتی اور پڑھاتی بھی جس کے لیئے خود اسے بھی تیاری کرنا پڑتی۔ نجانے اتنی توانائ اس میں کہاں سے آگئ تھی؟ رضوان نے ہمت ہار دی تھی جس کا منفی اثر فریدہ پر بھی ہوا تھا لیکن اب اسے اپنی زندگی میں مقصدیت نظر آرہی تھی۔عقیل ہسپتال کی morning report میں شامل ہوتا جس میں پچھلی رات admit ہونے والے مریضوں کے cases ڈاکٹر اجمل کے ساتھ discuss کیئے جاتے۔ کافی اور ڈونٹ کا ناشتہ بھی مفت مل جاتا۔ ایک دو روز جھجھک میں گذر گئے لیکن پھر اجمل کی شہ پاکر عقیل نے فعالیت دکھائ۔ ہم دیسی لوگ کتابی کیڑے ہوتے ہیں چاہے عملی طور پر نا تجربہ کار ہوں۔ عقیل کا کتابی علم سب کے لیئے حیران کُن تھا۔ درست جواب دینے کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا اور بعض اوقات بلا موقع بولنے پر سرزنش بھی ہوجاتی۔ جس طرح قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا ہماری سرشت میں نہیں اسی طرح دیسی ڈاکٹر بھی بسا اوقات آپے سے باہر ہوکر اپنی باری سے پہلے ہی بولنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہوتی ہے اور نظم و ضبط بھی۔ایک گھنٹے تک صبح کی بیٹھک کے بات ڈاکٹر اجمل اپنی team کے ساتھ مریضوں کا round کرتے۔ پھر بارہ بجے noon conference ہوتی جس میں لیکچر اور لنچ کا انعقاد ہوتا۔ سیکھنے کے ساتھ ساتھ طعام کا ملنا گویا دو آتشہ تھا جس نے عقیل کے ذہن اور جسم دونوں کو مہمیز لگادی تھی۔لنچ کے بعد وہ لائبریری جا کر پڑھائ شروع کردیتا۔ کچھ شکلیں اسے کتاب کے صفحے میں نظر آنے لگتیںاب جو پڑھتا ہوں کتابوں میں کسی صورت کوروک لیتی ہے تیرے پیار کی خوشبو مجھ کوفریدہ کا خیال اسے پھر راہ راست پر لے آتا۔ پانچ بجے فریدہ اسے لینے آجاتی۔ مغرب اور عشاء وہ دونوں مسجد میں پڑھتے۔ دو نمازوں کے درمیان ہر روز ایک بیان ہوتا جس سے جان چھڑانا تقریباً نا ممکن تھا۔ فریدہ کے دونوں ماموں کی عقابی نگاہیں میاں بیوی پر مرتکز رہتیں۔ پھر نہ صرف یہ ایک عادت سی بن گئ بلکہ عقیل کو لطف بھی آنے لگا۔ بیانات خالص مذہبی نوعیت کے نہیں تھے۔ مولانا رومی کی مثنوی اور علامہ اقبال کی شاعری پر ایک سلسلۂ بیانات چل رہا تھا۔

ڈاکٹر ڈھول باجے والاایک قسط وار ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیسینتیسویں قسطعقیل اور فریدہ کی نئ رہائش گاہ ایک چھوٹا سا Studio apartment تھا جس میں ایک کمرۂ استراحت اور اس سے منسلک ایک اور کمرہ تھا جو بیک وقت بارچی خانے ،ڈائننگ روم اور مہمان خانےکی حیثیت سے استعمال ہوسکتا تھا۔ شکر ہے کہ غسل خانہ bedroom کے اندر ہی تھا۔“فریدہ یہ تو بہت چھوٹی اور تنگ جگہ ہے۔ ““ مفت میں سر چھپانے کیلئے کوئ تاج محل تو ملنے سے رہا میرے بھولے سرتاج۔” فریدہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھی جنہیں گھٹا گھپ اندھیرے میں بھی کہیں نہ کہیں سے امید کی ننھی سی کرن نظر آجاتی تھی۔ ایسا نہ ہو تو مایوسی کی گھٹن انسان کو سانس تک نہ لینے دے۔“مگر یاسر کہاں سوئے گا؟”“ہمارے ساتھ اور کہاں؟”“یہ تو مناسب نہیں۔”“کیوں کیا تم اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں سوتے تھے۔ آخر وہ میرے اور رضوان کے ساتھ بھی تو۔۔۔۔”فریدہ کہتے کہتے رک گئ۔ عقیل کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں ہونے لگےتھے۔ رضوان حقیقی باپ تھا یاسر کو ساتھ لیکر سونے میں اُسے کیا اعتراض ہوتا لیکن عقیل کے لیئے یاسر سوتیلا بیٹا تھا۔ کسی کی اولاد کو اپنانے کا حوصلہ شاید ہی کسی بخت آور کو ملتا ہو۔“اچھا فکر نہ کریں۔ میں اسے اپنے ساتھ سلا دیا کروں گی اور پھر اسے ہم نیچے گدے پر ڈال دیا کریں گے۔ وہ رات میں نہیں اٹھتا۔”فریدہ نے پھر بیوی بن کر ماں کو سمجھا دیا کہ اس کا اور عقیل کا رشتہ ابھی نیا نیا ہے۔ وہ اس رشتے کو ہر قیمت پر استوار کرنا چاہتی تھی۔ صرف اپنے لیئے ہی نہیں بلکہ اپنے بیٹے کے لیئے بھی۔عقیل گاڑی سے سامان اوپر لانے لگا اور فریدہ چیزیں سمیٹنے لگی۔ دونوں کے درمیان کچھ دیر تک خاموشی رہی۔“سنو عقیل اطہر ماموں نے ہمیں رات کے کھانے پر بلایا ہے لیکن ہمیں کچھ groceries کے لیئے نکلنا پڑے گا۔ جمعہ سے مجھے دارالعلوم join کرنا ہے اور تم دل لگا کر پڑھائ شروع کردو۔ ““تو کیا تم روز پڑھاؤ گی؟”“نہیں مجھے ہفتے میں تین دن دو دو پیریڈ لینے ہونگے۔ میں نے part time position لی ہے۔ اظہر ماموں سے بڑی منت سماجت کرنا پڑی تھی۔ یاسر کو قریب ہی سکول میں داخل کردیں گے۔ ““تم کون سے subjects پڑھاؤ گی؟”“اس سال میں فرسٹ ایئر کی لڑکیوں کو تجوید، حفظ اور basic Arabic پڑھاؤنگی۔ تم بھی پڑھو گے کیا؟” فریدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔اس کی ہنسی میں Niagara Falls کے جھرنوں کی نغمگی تھی“ان کا چہرہ ہنسی کے عالم میںپھول پر برق گر گئی جیسےان کا انداز گفتگو ایساآبشاروں کی نغمگی جیسے”(ارشد مینا گری)“بس اب زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ یاسر کھیل رہا ہے اور ہمارے پاس وقت کم ہے۔”یہ مختصر خاندان ضروریات زندگی کی خریداری کے بعد واپس گھر پہنچا۔ میاں بیوی دونوں کو اپنے مالی حالات کا اندازہ تھا۔ فریدہ خاص طور پر کفایت شعار تھی۔ تجربہ جو تھا اس کے پاس۔اطہر ماموں قریب میں ہی رہتے تھے۔ فریدہ کی والدہ میمونہ ان کی بڑی بہن ہی نہیں بلکہ ماں کی طرح تھیں اس لیئے وہ فریدہ کو دل سے چاہتے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے اور خوب آؤ بھگت کی۔عقیل کو ان کے داماد ڈاکٹر جمال صدیقی سے مل کر بڑی مسرت کا احساس ہوا اور کیوں نہ ہوتا؟ آخر وہ بھی ڈاؤ میڈیکل کالج کے گریجویٹ تھے بس عقیل سے کچھ سال سینئر تھے۔ انہوں نے Buffalo میں ریزیڈینسی مکمل کی تھی اور Buffalo General Medical Center میں شعبۂ طب میں کام کرتے تھے۔“ ہاں تو عقیل کیا ارادے ہیں تمہارے؟”“سر میں FMGEMS کے لیئے تیاری کر رہا ہوں۔ دو ماہ بعد امتحانات ہیں پھر ریزیڈینسی کے لیئے apply کروں گا۔”“بھئ یہاں سر اور میڈم کے القابات نہیں چلتے۔ ہم ریزیڈینسی میں بھی اپنے Attending physicians کو ان کے پہلے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔”“ جی ڈاکٹر صدیقی بس مجھےذرا ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ڈاؤ میں تو ہم اپنے سینیرز کو سر اور میڈم کہ کر ہی ان سے بات کرتے تھے۔”“یار اب تم کھلی فضاؤں میں آگئے ہو۔ اڑنا سیکھو ورنہ قفس میں پڑے پڑے یہی بھول جاؤگے کہ پرواز بھی کوئ شئے ہے۔ ہم تو رشتہ دار ہیں اجمل بھائ کہ دیا کرو۔”“جی اجمل بھائ۔”“ کوئ بھی ضرورت ہو بلا جھجھک مانگ لینا۔”“جی اجمل بھائ اللہ کا شکر ہے۔ میں نے ہاؤ س جاب نہیں کیا۔ ویسے میں اپنی کلاس میں top ten میں تھا لیکن practical experienceنہیں ہے. سنا ہے کوئ واقفیت ہو تو ہسپتال میں attachment مل جاتی ہے۔”“کیوں نہیں بھئ بالکل مل سکتی ہے۔میں اپنے residency program director سے کل ہی بات کروں گا۔ تم میرے ساتھ راؤنڈ ز کیا کرنا اور پھر لائبریری میں پڑھ لیا کرنا۔”عقیل سے پہلے فریدہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ایک روشن مستقبل کا خواب حقیقت بنتا ہوا نظر آنے لگا۔“الحمد للّٰہ! اجمل بھائ میرے پاس آپ کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں۔ اللہ آپ کو اجر عظیم عطا کرے۔”فریدہ کی تشکر سے لبریز آواز اور جھیل سی آنکھوں میں تیرتے اشکوں نے صرف عقیل ہی کو نہیں بلکہ تمام حاضرین محفل کو آبدیدہ کردیا۔“ ارے بھئ یہ تو خوشی کا موقع ہے چلیں سب میٹھا اور چائے لے لیں۔”ممانی نے ماحول میں شیرینی بکھیر دی۔اللہ چاہے تو صحرا میں بھی پھول کھل سکتے ہیں۔عقیل کے لیئے ہر دروازہ خود بخود ہی کھلتا رہا تھا۔ اسے احساس ہورہا تھا کہ ماں باپ کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ فریدہ کی رفاقت اس کے راستے میں بچھے ہوئے تمام کانٹے دور کررہی تھی۔

And yes we laugh

ابوالعلا معري

ضَحِكنا وَكانَ الضِحكُ مِنّا سَفاهَةً

وَحُقَّ لِسُكّانِ البَسيطَةِ أَن يَبكوا

يُحَطِّمُنا رَيبُ الزَمانِ كَأَنَّنا

زُجاجٌ وَلَكِن لا يُعادُ لَهُ سَبكُ
We laugh and yet laughter is a sign of our stupidity
It will be more appropriate for us to cry
The passage of time smashes us into pieces
That can never be put together

Mirza Ghalib on Pantheism

کثرت آرائ وحدت ہے پرستارئ وہم
کردیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے
غالب
This is an encapsulation of the concept of pantheism or وحدت الوجود by Ghalib.
Numerous manifestations of the Unity have led to the worship of (the product of our) imagination
These imaginary idols have turned me into a disbeliever

ڈاکٹر ڈھول باجے والاایک قسط وار ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیچھتیسویں قسطفریدہ نے بیوی کے کردار کو پسِ پشت ڈال کر ماں کی ذمہ داری نبھانی شروع کردی۔ ڈاکٹر عقیل کو اپنے احساسات کچلنے اور جذبات کے تلاطم کو ہموار کرنے میں کچھ دیر تو لگ ہی گئ۔ اسے احساس ہونے لگا تھا کہ ماں اپنی ممتا نہیں چھوڑ سکتی۔ تخیئل کے دریچوں سے اسے وہ لمحات نظر آنے لگے جب اس کی ماں اسے گود میں لیئے لوری سناتے ہوئے خود سو جاتی اور ابا کمرۂ استراحت میں پہلو بدلتے رہتے۔ لیکن عقیل اپنے والد کی صلبی اولاد تھا جب کہ یاسر ایک پرایا بچہ تھا۔ خیر چار و ناچار سامان سمیٹنا پڑا۔ ننھا یاسر تیار ہوکر عقیل کے پاس دوڑتا ہوا آیا اور مضبوطی سے چمٹ گیا۔ کئ دنوں سے دیکھا جو نہیں تھا۔ عقیل کے انداز میں شادی سے پہلے والی گرم جوشی تو نہیں تھی لیکن وہ یاسر کے والہانہ رویئے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آنکھوں سے چھلکتی ہوئ مشتاقانہ معصومیت اس کے احساسِ یتیمی کی غماز تھی۔ عقیل کا دل اُمڈ آیا اور اس نے یاسر کو خوب پیار کیا۔“انکل آپ کہاں چلے گئے تھے؟ ““یاسر میں اور انکل کسی کام سے گئے تھے۔ اب یہ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے اور ہم تھوڑی دیر میں Buffalo جارہے ہیں۔”یاسر کی آنکھیں پھیل گئیں اور ننھے چہرے پر مسرت کے گلاب کھلنے لگے۔“سچ عقیل انکل آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے؟ امی ہم اطہر ماموں اور اظہر ماموں کے پاس جائیں گے؟”یاسر ماں باپ کے ساتھ دو تین بار Buffalo جا چکا تھا۔ فریدہ کو اطمینان تھا کہ یاسر نامانوس ماحول میں اجنبیوں کے ساتھ نہیں بلکہ جانے پہچانے لوگوں کے ساتھ رہے گا اور اپنے ہم عصر cousins کے ساتھ جلد ہی گُھل مل جائے گا۔ایک ماں خود سے زیادہ اپنی اولاد کے بارے میں متفکر رہتی ہے۔ رضوان یاسر کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا اس لیئے اس کی زیادہ وابستگی ماں کے ساتھ ہی تھی۔ فریدہ کو البتہ یہ فکر ضرور لاحق تھی کہ کیا عقیل کا آئندہ رویہ اس کے بیٹے ساتھ سوتیلے باپ جیسا تو نہیں ہوگا؟یہ مختصر خاندان Buffalo کی طرف روانہ ہوا۔ راستے بھر یاسر نے مسلسل عقیل سے باتیں کیں۔ کینیڈا کی سرحد پار کرنے کے بعد فریدہ نے اصرار کیا کہ وہ گاڑی چلائے گی کیونکہ وہ راستوں سے واقف تھی۔ دوپہر کا کھانا McDonald’s سے لیا۔ فِش برگر، فرینچ فرائز اور کوک۔ عقیل کی بھی یہ کھانے کی عادت سی ہوچلی تھی حالانکہ اسے ڈاؤ میڈیکل کالج کی کینٹین والی بریانی اور سموسوں کی اشتہاء بے چین کردیتی تھی۔ یہ کہانی اس دور کی ہے جب کینیڈا اور امریکہ میں حلال گوشت کم جگہوں پر دستیاب تھا اور دیسی اور Middle Eastern کھانوں کی دکانوں کا رواج شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ پاکستان سے آنے والے بیشتر لوگ فِش اور چپس اور سبزیوں پر گذارا کیا کرتے تھے۔ کچھ مذہب کی پابندیوں کو دل و دماغ سے اتار کر پھینک دیتے تھے جبکہ عرب لوگ اہلِ کتاب کے ہر کھانے کو، بجز سور کے گوشت کے، بلا تامل کھالیتے تھے۔“فریدہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سُپر مارکیٹ کا گوشت بھی کھالیتے ہیں اور چکن برگر بھی لے لیتے ہیں۔”“عقیل عرب لوگ شافعی مسلک کو follow کرتے ہیں جب کہ ہم حنفی صرف ذبیحہ گوشت ہی کو حلال سمجھتے ہیں۔”“لیکن اس پر عمل کرنا تو مشکل ہوتا ہوگا۔ ہم یہاں کیا کھائیں گے؟”“فکر نہ کرو ماموں کی دکان پر حلال گوشت دستیاب ہے لیکن ذرا مہنگا ملتا ہے۔ تمہیں استقامت سے کام لینا ہوگا۔ مسلمان ممالک سے آنے والے کئ لوگ اپنے مذہب اور اپنی روایات کو چھوڑ کر مغربی تہذیب میں integrate ہوجاتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ ثابت قدم رہتے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔” فریدہ روانی کے ساتھ اردو بول لیتی تھی لیکن انگریزی کے الفاظ بے اختیار اس کی گفتگو میں شامل ہوجاتے۔جلد ہی یہ قافلہ منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ دارالعلوم کے ساتھ ہی دونوں ماموں کے گھرانے مقیم تھے۔ عقیل اور فریدہ کا استقبال بڑی گرم جوشی سے ہوا۔ خاندان کے دیگر افراد بھی پر تپاک طریقے سے ملے۔“ڈاکٹر بیٹا تم سے مل کر دلی مسرت ہوئ۔ فہیم بھائ اور میمونہ نے تمہاری بڑی تعریف کی تھی۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ اس تعریف کا بھرم رکھو۔ ہم نے تو تمہیں اپنے جگر کا ٹکڑا دے دیا ہے۔”“جی اظہر ماموں یہ تو میری خوش نصیبی ہے۔”“اچھا بھئ اب تم لوگ تھک گئے ہوگے۔ چلو تمہیں apartment لیئے چلتے ہیں۔ ان شاء اللہ جمعہ کے مبارک دن سے کلاسوں کا آغاز ہوگا۔ تب تک تم لوگ بآسانی settle ہوجاؤگے۔ اور ہاں بھئ ہمارا سٹور برابر میں ہی ہے تمہاری ضرورت کا سارا سامان مل جائے گا۔ ہم پانچوں وقت کی نمازیں با جماعت مسجد میں ادا کرتے ہیں اور فجر اور مغرب کے بعد مختلف علماء کے بیانات منعقد کیئے جاتے ہیں۔ تم ضرور آنا۔ علم کا سمندر تمہارے سامنے ہے۔ جتنا بھی پانی پی لو پیاس بجھنے کی نہیں۔” اطہر ماموں نے ہنستے ہوئے کہا اور عقیل سے وابستہ اہنی توقعات بھی بیان کردیں۔“ماموں ابھی تو ہم آئے ہیں اور عقیل کو اپنے امتحانات کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔” فریدہ نے شوہر کی حمایت کا فرض نبھایا۔“اچھا بیٹا جو تمہاری مرضی۔ لیکن نماز با جماعت ہی ادا کرنی چاہیئے۔” اظہر ماموں نے چھوٹے بھائ کو مزید کچھ کہنے سے اشارتاً روک دیا۔فریدہ اپنی ممانیوں اور cousins سے کچھ دیر محو گفتگو رہی اور عقیل یاسر کو bathroom لیکر گیا۔ ماموں کے تقاضے سننے سے تو یہی بہتر تھا۔ پہلے کبھی کسی بچے کی اس طرح خاطر مدارت نہیں کی تھی۔اور پھر میاں بیوی ماموں کے ساتھ اپنی مستقبل کی رہائش گاہ کی سمت گامزن ہوئے۔اک اور سفر کے لیئے لوٹا ہوں سفر سے

ڈاکٹر ڈھول باجے والاایک قسط وار ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیپینتیسویں قسطبعض سفر جلد ہی اختتام پزیر ہوجاتے ہیں لیکن ان میں گذارے ہوئے لمحات کی خوشبو کبھی پرانی نہیں ہوتی۔ عقیل اور فریدہ اتوار کی شب گھر پہنچے۔ بدن تھکن سے چور تھے لیکن امنگوں کا طوفان اب بھی اپنے جوبن پر تھا۔ عقیل اپنے آپ کو فریدہ کی خوابیدہ آنکھوں میں گُم کرنے کا خواہاں تھا لیکن ماں نے دو دن کی جدائ کے بعد گھر پہنچتے ہی یاسر کا رخ کیا۔ ننھا شہزادہ ماں کی یاد میں بلک بلک کر نانی کی گود میں سو رہا تھا۔ اس کے دل پر کیا گذری تھی وہ اس کے چہرے سے عیاں تھی اور ممتا بھری نگاہوں سے اشکوں کا سیلاب یک لخت اُبل پڑا۔گود میں لیکر یاسر کو خوب پیار کیا“بیچارہ دو دن سے روئے جارہا تھا۔ کہا بھی تھا کہ اسے ساتھ لیجاؤ۔ اب سونے دو بڑی مشکلوں سے آنکھ لگی ہے۔” نانی کا لہجہ نواسے کی خاموش زبان تھا۔“امی میں اسے اپنے پاس سلاؤں گی۔”عقیل کے جذبات جھنجھلاہٹ میں بدل گئے لیکن کیا کرسکتا تھا۔ فریدہ یاسر کو سینے سے لگائے شوہر کی موجودگی کے احساس سے بے خبر سوگئ۔ اور نیا نویلا دولہا دل میں طوفاں دبائے کروٹیں بدلتا رہا۔“عقیل اٹھو تہجد کا وقت نکلا جارہا ہے!”عقیل کے کانوں کو جیسے یہ نِدا خوابوں کی کسی ان دیکھی وادی سے آتی ہوئ محسوس ہوئ۔آواز کی بازگشت بلند سے بلند تر ہوتی گئ“سونے دو فریدہ۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔”فریدہ کے بار بار جھنجھوڑنے پر چار و ناچار اٹھنا ہی پڑا۔ صغریٰ کے یہاں تو صرف فجر کے لیئے اٹھنا پڑتا تھا لیکن شادی کے بعد تہجد سے لیکر اشراق تک کی نمازیں باقائدہ ادا کرنے کا حُکم تھا۔عقیل کا بس چلتا تو لحاف میں منہ چھپائے نیند کی پری کو گلے لگا لیتا۔“عقیل ہمیں Buffalo روانہ ہونا ہے۔ ہم نے ابھی تک سامان بھی نہیں pack کیا۔ اٹھو ناں!”“جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے”عقیل نے انگڑائی لیتے ہوئے رومانوی انداز میں کہا“یہ اللہ تعالی کا حکم ہے!” جواب میں ایک تحکم تھا ۔ایک یقین تھا۔نماز سے فارغ ہوکر میاں بیوی نے ہلکا سا ناشتہ کیا اور پھر packing کی طرف متوجہ ہوئے۔ کپڑوں سے زیادہ فریدہ کی کتابیں تھیں جو عقیل نے پہلی بار دیکھی تھیں۔اس کا خیال تھا کہ فریدہ صرف مذہبی کتابیں پڑھتی ہوگی۔ لیکن اس کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس نے کالج کی کتابیں دیکھیں جو مختلف موضوعات پر تھیں جیسے فلسفہ، تاریخِ عالم، عالمی ادب وغیرہ“فریدہ یہ کتابیں تمہارے پاس کیسے آئیں؟”“عقیل میں نے شادی کے بعد دو سال تک یہاں college courses لیئے تھے۔ میں graduation کرنا چاہتی تھی لیکن یاسر کی پیدائش کے بعد وقت نہیں ملا۔ ان شاء اللہ تمہیں residency مل جائے تو مزید دو سال کے لیئے کسی کالج میں داخلہ لے لونگی۔ اپنا وعدہ یاد رکھنا۔ پھر اس کے بعد دیکھ لیں گے۔”عقیل نے ان کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن اسے محسوس ہوا کہ پاکستان کا نظام تعلیم premedical اور pre engineering کے طلباء کو دیگر علوم کے لیئے ذہنی طور پر تیار نہیں کرتا جبکہ اس کے برعکس مغربی ممالک میں بارہ سال کی بجائے سولہ سال کی تعلیم کے بعد میڈیکل کالج کی پڑھائ شروع ہوتی ہے۔ کالج کے چار سالوں میں مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن سے طلباء کا ذہن پختہ تر ہوجاتا ہے اور ان میں سوچنے سمجھنے اور مزید مطالعہ کرنے صلاحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ فلسفہ، تاریخ عالم، عالمی ادب، علم الاقتصاد جیسے مضامین کی اہمیت کا ادراک ہمارے ڈاکٹروں اور انجینئروں میں ناپید ہے۔“فریدہ مجھے احساس ہورہا ہے کہ میری تعلیم ادھوری ہے۔ میں یہ کتابیں بغیر کسی استاد کے نہیں پڑھ سکتا۔”“ارے میرے بھولے سرتاج اپنے آپ کو کیوں underestimate کرتے ہو؟قرآن کہتا ہے کہ ليسَ لِلانسانِ الا ما سعيٰ. انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ میں تمہیں تھوڑا سا guide کر دوں گی۔”مرمری بانہیں گردن میں اتر آئیں۔“امی!”یاسر کی آواز نے جذبات کے آنے والے سیلاب پر بند باندھ دیا۔

ڈاکٹر ڈھول باجے والاایک قسط وار ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیچوتیسویں قسطوقت کی رفتار گھڑی کے مطابق یکساں رہتی ہے لیکن وقت گذرنے کا احساس بدلتا رہتا ہے۔ رنج و الم کی ایک ایک گھڑی ایک گھنٹے کی مانند یا اس سے بھی بڑھ کر محسوس ہوتی ہے جبکہ نشاط و طرب کے ایام منٹوں میں گذر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عقیل اور فریدہ کا حال یہ تھا کہرو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیئے تھمےنے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میںعقیل نے امتحانات کی فیس بھر کر تاریخ لے لی تھی۔ امریکی اور برطانوی امتحانات کی تیاری کے لیئے مروجہ کتابیں بڑی مہنگی ہوتی ہیں۔ اللہ بھلا کرے کہ برنس روڈ اور اردو بازار پر کچھ دکانداروں نے ان کتابوں کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں سستے داموں میں مہیا کردی تھیں۔ عقیل وہ کتابیں کراچی سے ساتھ لے آیا تھا۔مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل بُک فاؤنڈیشن بنائ تھی جو لائسنس لیکر غیر ملکی سائنسی کتابوں کے مقامی ایڈیشن شائع کرتی تھی۔ چھپائ غیر معیاری ہوتی تھی اور عام کاغذ پر جس کے باعث میڈیکل کتابوں میں تصاویر غیر نمایاں ہوا کرتی تھیں۔ تاہم ایک عام پاکستانی طالب علم کے والدین کی جیب اتنی متحمل نہیں ہوتی تھی کہ وہ اوریجینل کتابیں خرید سکیں۔ڈرائیونگ لائسنس اور امریکی ویزا ملنے کی خوشی میں فریدہ نے عقیل کے ساتھ Niagara Falls کی سیر کا منصوبہ بنایا۔ جمعہ کی نماز کے بعد نیا شادی شدہ جوڑا یاسر کو نانا نانی کی زیر نگرانی چھوڑ کر راز و نیاز کی سحر انگیز خلوت میں روانہ ہوا۔پیر کو انہیں ٹورنٹو کو الوداع کہ کر Buffalo منتقل ہونا تھا۔ آئینۂ ایام میں مستقبل مصروف نظر آرہا تھا اس لیئے دو روز کا Honey moon بھی غنیمت تھا۔ایک ہوٹل پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا۔ آرام کیا تھا ہم نشینی کے مختصر لمحات تھے جس کے بعد دونوں Niagara Falls گئے۔ عقیل نے اس کے بارے میں سنا تھا لیکن مشاہدہ چیزِ دیگر است!ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھمختلف rides کے بعد ایک کشتی میں سفر ہوا۔کھچا کھچ بھری کشتی نیلگوں پانیوں میں سبک رفتاری سے چل رہی تھی۔ ارد گرد کے مناظر مثلِ بہشت نظر آئے۔عقیل کے اندر مدتوں کا سویا ہوا گلوکار اچانک ہی جاگ اٹھا اور بلا اختیار اس نے گانا شروع کردیاچلو دلدار چلو چاند کے پار چلو“ہم ہیں تیار چلو” عقیل تو کیا کشتی کے تمام مسافروں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں جب سر کو ڈھانپے ہوئے دوشیزہ نے سُر سے سُر اور تال سے تال ملائعقیل کے خواب و خیال بھی نہیں تھا کہ مذہبی تعلیم یافتہ عالمہ فریدہ گا بھی سکتی ہوگی اور وہ بھی اتنی مہارت سےمسافروں کی تالیاں، بہکی فضائیں مہکی ہوائیں، سب نے مل کر دونوں کا حوصلہ بڑھایا۔ فریدہ نے پورا نغمہ اپنی مدھر آواز میں سنایا جبکہ عقیل کے حصے میں چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو ہی آیا۔رات کا کھانا کھا کر انہوں نے ساحل کی رفاقت میں آسمان پر پھیلتی ہوئ چاندنی میں چمکتے ستاروں کو اپنا رازداں بنایا اور پھر ہوٹل لوٹے۔یہ رات شبِ عروسی سے بڑھ کر لطف انگیز اور ہیجان سے بھر پور تھی۔“فریدہ تم نے تو مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ تمہاری سریلی آواز نے سب کو ہی مسحور کردیا۔ میں تو ڈر رہا تھا کہ کہیں تم گانا گانے پر ناراض نہ ہوجاؤ۔”“عقیل اسلام میں موسیقی کی حرمت پر فقہی اختلاف ہے۔ اور ہم نے تو بغیر موسیقی کے صرف گنگنایا تھا۔ میرے اساتذہ اور خاندان والے مجھ سے اختلاف کریں گے۔ عقیل میں نے باقائدہ مذہبی تعلیم حاصل کی ہے لیکن دارالعلوم میں traditional طریقے پر تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمیں کتابیں حفظ کرائ جاتی ہیں لیکن سوچنا نہیں سکھایا جاتا۔ سوال کرنا ممنوع ہے۔ میں نے high school کے بعد دینی تعلیم شروع کی۔ میرے ذہن میں بھی مذہب کے حوالے سے کئ سوالات ہیں جو secular تعلیم کے فارغ التحصیل لوگوں کو درپیش ہوتے ہیں۔ غیر مسلم بھی یہ سوالات کرتے ہیں جن کے تسلی بخش جوابات ہمارے روایتی علماء نہیں دے پاتے۔حالات کی بناء پر مجھے کچھ عرصے دارالعلوم میں پڑھانا پڑے گا۔ عقیل وعدہ کرو کہ جب تم ریزیڈینسی مکمل کر لوگے تو مجھے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے دو گے۔ میں وہ subjects بھی پڑھنا چاہتی ہوں جو ہمیں نہیں پڑھائے جاتے جیسے world history, philosophy، literature وغیرہ۔ پھر میرا ارادہ religious studies میں PhD کرنے کا ہے۔”عقیل حیرت در حیرت اسے دیکھے جارہا تھا۔ یہ لڑکی اس کے تصور سے بڑھ کر تھی۔ وہ شوہر کو آپ کی بجائے تم کہ کر مخاطب کرتی تھی۔ اس کی سوچ بلند تھی اور ارادے پختہ۔ اس کی لگن عقیل کے دل کو متاثر نہ کرتی یہ کیسے ہوسکتا تھا۔فریدہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بنا کچھ کہے اس نے فریدہ کو یہ احساس دلایا کہ وہ اس کے ساتھ ہے، ہم راہ بھی ہم نفس بھی۔

ڈاکٹر ڈھول باجے والاایک قسط وار ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیتیتیسویں قسطعقیل کی تو خیر یہ پہلی شادی تھی۔ اس کی خوشی کا عالم بآسانی سمجھ میں آتا ہے لیکن فریدہ اس سے بڑھ کر خوش اور مطمئن تھی۔ یاسر کے سکول جانے کے بعد ان کے مابین گفتگو سن کر ہوا بھی جھومنے لگتی ۔عقیل دید اور گفتار کی لذت سے سیر یاب نہیں ہوپاتا تھاصرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیںمیں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوںاور دوسری طرف فریدہ تھی جو پچھلے ہزاروں دن رات سے ایک اجنبی کے ساتھ ایسے سفر میں رواں تھی جس کی کوئ منزل نظر نہ آتی تھی اور پاؤں بوجھل ہونے کے باوجود زندگی کی تپتی سلگتی ریگ پر چلنے کو مجبور تھے۔کوئ ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبتمیں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئےاس کے جوان امنگوں بھرے دل کی مراد برآئ تھیعقیل خوش شکل ہی نہیں خوش گفتار بھی تھا اور جوانی کے تقاضوں سے واقف بھیاس کی باتیں بھی دل آویز ہیں صورت کی طرحمیری سوچیں بھی پریشان میرے بالوں جیسیاس کے الجھے ہوئے بکھرے ہوئے بالوں کو نرم انگلیاں جب سنوارنے لگتیں تو دل کیسے قابو میں رہتا؟زندگی لوٹ کر آگئ تھی اور فریدہ اس حسین خواب سے بیدار ہونے کو رضا مند نہ تھی. اس کی مدہوش خوابیدہ آنکھیں جواں سال شوہر کے دھڑکتے دل میں اتر کر ہیجان بپا کردیتیں۔ لیکن خواب سے جاگنا ہی پڑتا ہے۔یاسر کو سکول سے گھر لانے کا وقت لمحۂ فراق بن کر خوابوں کے تسلسل کو یکایک بکھیر دیتاہنی مون گھر پر ہی گذرا اور پھر زندگی اعتدال پر آنے لگی۔“عقیل اب آپ کو سنجیدگی سے اپنے امتحانات کے لیئے پڑھائ شروع کرنی چاہیئے۔ دارالعلوم سے employment کے کاغذات آگئے ہیں۔ اگلے مہینے سے join کرنا ہے۔ ہمیں اب Buffalo جانے کی تیاری کرنی ہے۔ ““ ہاں فریدہ میں بھی تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ امریکہ میں ریزیڈینسی کے لیئے دو حصوں کا امتحان دینا پڑے گا۔ میں نے جو کچھ بچایا ہے اس سے امتحان کی فیس ادا ہوجائے گی لیکن اس کے بعد میرے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔ کیا مجھے Buffalo میں کوئ ملازمت مل سکتی ہے؟”“ وہاں پہنچ کر ہمیں ایک وکیل سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ میں امریکی شہری ہوں اس لیئے آپ کے Green card کے لیئے درخواست دینا ہوگی۔ مجھے قانونی پیچیدگیوں کا بخوبی علم نہیں لیکن اطہر ماموں ایک جاننے والے وکیل ہیں جو اس سلسلے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ آپ اخراجات کی فکر نہ کریں۔ میری تنخواہ گھر کے اخراجات کے لیئے کافی ہوگی اور apartment اظہر ماموں بغیر کرائے کے دیں گے۔ میں نے ابو سے کہا ہے کہ مجھے صرف گیس سٹیشن کی آمدنی چاہیئے۔ کنوینینس سٹور کی کمائ مجھے قبول نہیں۔”“میرا بھی یہی خیال ہے۔ اگر حلال رزق سے گذارا ہوسکتا ہے تو حرام کی کمائ کیوں لی جائے۔ تم فہیم انکل کو منع کیوں نہیں کرتی؟”“عقیل یہ کہنا آسان ہے لیکن غیر اسلامی ملک میں رہنے کے اپنے مسائل ہیں اور یہاں فقہ الاقلیت کی بحث شروع ہوجاتی ہے۔”عقیل نے یہ اصطلاح پہلی بار سنی تھی۔اس کی استفسارانہ نگاہوں کو فریدہ نے فورا پڑھ لیا اور اس کے پوچھنے سے پہلے ہی وہ بول اٹھی۔“ غیر اسلامی ممالک میں مسلمان بحیثیت اقلیت یا minority کے طور پر رہ رہے ہیں۔ انہیں اسلامی شریعتکے ساتھ ساتھ ملکی قانون کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ شراب کی تجارت، سگریٹ اور لاٹری ٹکٹ بیچنا بعض اوقات ناگزیر ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ اس کمائ کو غریبوں میں بانٹ کر اپنا ضمیر مطمئن کرلیتے ہیں۔”“یعنی ضمیر کو گہری نیند سلادیتے ہیں۔” عقیل کے لہجے میں تلخی اور بیچارگی کا اختلاط تھا۔“عقیل ہم پوری کوشش کریں گے کہ اسلامی طرز زندگی کو اپنائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے اندازِ فکر میں لچک آجائے گی۔ اچھا یہ بتائیے کہ پڑھائ کے سلسلے میں آپ کو کسی قسم کی مدد درکار ہے؟”“ امتحانات کا part one تو basic medical sciences پر مبنی ہے جس کی مجھے فکر نہیں۔ بس تھوڑے سے revision کی ضرورت ہے لیکنPart two میں clinical سوالات ہوتے ہیں۔ میں نے کتابیں تو پڑھی ہیں مگر ہاؤس جاب نہیں کیا۔ اگر مجھے کسی ہسپتال میں attachment مل جائے تو یہاں کی health care کا تجربہ مل جائے گا۔ اس سے امتحان میں اچھے نمبر مل سکتے ہیں۔”باہر سے آنے والے اکثر ڈاکٹر کسی کینیڈین یا امریکی ہسپتال میں بغیر تنخواہ کے تجربہ حاصل کرنے کی غرض سے کچھ عرصہ کام کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اسے clinical attachment کہا جاتا ہے۔ اس سے ریزیڈینسی ملنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔“ کیوں نہیں۔ اظہر ماموں کے بڑے داماد ڈاکٹر سجاد افضل Buffalo کے state university hospital میں کام کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس بارے میں ہماری مدد کریں گے۔”فریدہ کے دو ماموں اظہر اور اطہر Buffalo میں دارالعلوم کے مہتمم تھے۔ دونوں ہی عالم اور مفتی تھے لیکن غضب کا کاروباری ذہن رکھتے تھے۔ دونوں ہی نے دکانیں اور apartments کرائے پر دے رکھے تھے۔ دین اور دنیا کو ایک ساتھ لیکر چلتے تھے۔ بیٹوں کے لیئے مذہبی تعلیم یافتہ پردے دار بیویاں تو اپنی بیٹیوں کے لیئے مغربی تعلیم یافتہ شوہر۔ ڈاکٹر، انجینیئر، ڈینٹسٹ، اکاؤنٹنٹ! ہر لحاظ سے خود کفیل خاندان تھا!ڈاکٹر عقیل ڈھول باجے والا خیالی گھوڑے پر کھلی فضا کی جولان گاہ میں دوڑ رہا تھا۔ اس کے خوابوں کی منزل تک پہنچنے والے تمام راستے خود بخود ہموار ہوتے جارہے تھے اور کسی کی سیاہ زلفوں کا سایہ اسے زمانے کی دھوپ سے بچا رہا تھا۔ اگر وہ تھک کر کسی پتھر سے بھی سر لگا لیتا تو مرمری بانہیں اس کی گردن میں اتر آتیں۔

ڈاکٹر ڈھول باجے والاایک قسط وار ناولڈاکٹر سلیم ابوبکر کھانانیبتیسویں قسطڈاکٹر عقیل کے والدین سے فہیم شیخ نے نہ صرف گفتگو کی بلکہ بڑے تپاک اور گرم جوشی کا بھی مظاہرہ کیا۔ ہاں البتہ دوسری طرف کچھ سرد مہری تھی تو کچھ حیرت سی بھی۔ تھوڑے عرصے پہلے ہی اکرام الدین نے صغرٰی کا رشتہ مانگا تھا اور اب اچانک ایک بیوہ کے والد نے انہیں “خوش خبری” سنادی کہ بہو کے ساتھ ساتھ ایک عدد پلا پوسا پوتا بھی انہیں بفضلِ باری تعالیٰ مل رہا تھا! عقیل نے انہیں رضوان کی وفات سے لیکر اب تک کے حالات سے بے خبر رکھا تھا۔ بتاتا بھی کیسے؟خیر ہزاروں میل دور بیٹھے ہونے والے ساس سسر دعائیں دینے کے علاوہ اور کیا کر سکتے تھے۔ انہیں تو یہ فکر بھی لاحق تھی کہ رشتے داروں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ عقیل کی صغرٰی سے بات پکی ہونے پر رشتے داروں کو تو کیا محلے بھر میں مٹھائیاں بانٹی تھیں! اب باقی اشیاء کی طرح مٹھائی کے دام بھی آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ جگ ہنسائ سے خاموشی ہی بہتر تھی۔نکاح اگلے جمعہ کو سادگی سے گھر میں ہی انجام پزیر ہوا۔ مفتی انور نے نماز کے بعد دوسری بار فریدہ کا نکاح پڑھایا اور دل ہی دل میں دعائیں کرتے رہے کہ یہ نوبت پھر پیش نہ آئے۔نمازِ عشاء کے بعد رخصتی طے پائ تھی لیکن یاسر سجی سنوری ماں سے چمٹا ہوا تھا۔ ازدواجی رشتوں کا ادراک اس کے ننھے ذہن میں بھلا کہاں لیکن اس نے ماں کا یہ روپ پہلے نہیں دیکھا تھا۔ آج عقیل نے بھی ان کے ساتھ عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ وقت گذارا تھا۔ کچھ نہ کچھ احساس تو اسے ہوچلا تھا کہ فریدہ اب صرف اس کی ماں ہی نہیں رہی تھی۔ وہ اس قلیل جدائ کے لیئے بھی تیار نہ تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے؟ آج اسے اپنا باپ بہت یاد آیا تھا۔ عقیل کے ساتھ بھی اسے اجنبیت سی محسوس ہوئ۔ وقفے وقفے سے ننھی سی آنکھیں مصروف گریہ ہوجاتیں جن کی بارش ممتا بھرے دل پر آندھی کی طرح برستی۔بڑی مشکلوں سے وہ سویا اور نانی نے اسے فریدہ کی گود سے ایسے اٹھایا جیسے وہ شیشے کی گڑیا ہو اور معمولی سی بد احتیاطی سے اس کے چکنا چور ہونے کا خدشہ ہو۔ اداس دلہن کی اشک بار آنکھوں نے ماں سے التجاء کی کہ اپنی جان سے بڑھ کر میری ننھی سی جان کا خیال رکھنا۔ماں باپ کی پر خلوص دعاؤں کے ساتھ وہ ایک بار پھر رخصت ہوئ۔ سفر پرانا تھا لیکن ہم سفر نیا!میمونہ کے سمجھانے پر فہیم شیخنے فریدہ اور عقیل کے لیئے ایک نئے اپارٹمنٹ کا انتظام کیا تھا۔ رضوان موجود نہ سہی لیکن پرانے مکان میں اس کی ناقابل فراموش یادیں اب بھی فریدہ کا تعاقب کرتی تھیں۔ رضوان کی آواز اسے دیواروں سے گونجتی سنائ دیتی تھی۔ہجرۂ عروسی سادگی سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں فرنیچر بھی کچھ زیادہ نہ تھا۔ تازہ گلابوں کی مہک سے بڑھ کر دلہن کی خوشبو کمرے کو معطر کیئے جارہی تھی۔عقیل کمرے میں دبے پاؤں یوں داخل ہوا جیسے اسے خدشہ ہو کہ قدموں کی آہٹ طلسم ہوش ربا کو کہیں توڑ نہ دے۔ کچھ دیر تک تو وہ دروازے پر ہی کھڑا رہا۔ پیاسا دریا کے کنارے کھڑا تھا لیکن پیاس بجھانے کی ہمت نہ تھی۔ پاؤں گویا زمین میں منجمد ہوگئے تھے۔“السلام علیکم” فریدہ نے چشمے میں بہتے ہوئے پانی کی طرح کھنکھناتی آواز سے اسے اذن باریابی عطا کیا۔“ جی جی وعلیکم اسلام!”آواز ہی نہیں قدم بھی لڑکھڑا رہے تھے۔ عقیل نے اس سے پہلے فریدہ کو بغیر کسی میک اپ کے سر پر حجاب اوڑھے ہی دیکھا تھا۔ آج تو یہ حال تھا کہآ مگر اس قدر قریب نہ آکہ تماشہ محال ہوجائےفریدہ کی ایک جھلک نے اس کے شوق و اضطراب کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ صغرٰی کی شبیہ جو اس کے ذہن کے کسی خوابیدہ کونے میں خلوت پزیر تھی یکایک غائب ہوگئ۔یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائےدولہا میاں نے اس سے پہلے کسی لڑکی کے ساتھ تنہائ میں ایک پل بھی نہیں گذارا تھا۔ دلہن تجربے کار تھی معاملے کو بخوبی سنبھال گئ۔جذبات کا طوفان تھما تو میاں بیوی محو گفتگو ہوئے۔